امریکہ کے اعلیٰ فوج کمانڈر نے کہا ہے کہ داعش کے خلاف جنگ تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔
امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے بدھ کو برلن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ دونوں جانب چیلنجوں کے باعث نہ داعش اور نہ ہی اتحادی افواج کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
اتحادی افواج نے داعش کی رسد میں خلل پیدا کیا ہے، کمانڈ اور کنٹرول پر حملہ کیا ہے اور عسکریت پسندوں پر کئی اطراف سے دباؤ ڈالا ہے۔
جنرل ڈیمپسی نے کہا کہ عراقی حکومت کی اندرونی جھگڑوں کے دوران عراقی فوج میں قیادت کی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور اسے رسد سے متعلق مسائل کا سامنا رہا ہے۔
’’یہ سب ان (عراقیوں) پر ہے کہ وہ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے اور جنگ کی تیاری کے لیے کیا کرتے ہیں۔‘‘
بغداد سے موصل کے راستے میں بيجی ایک اہم شہر ہے جہاں تیل کی تنصیبات موجود ہیں۔ اس شہر پر قبضے کے لیے عراقی فوج اور داعش کے درمیان کئی ماہ سے لڑائی جاری ہے۔
مئی میں داعش کے جنگجوؤں کی
آمد کے بعد عراقی سکیورٹی فورسز انبار صوبے کے دارالحکومت رمادی سے بھاگ گئیں۔ داعش کے زیر تسلط اس شہر کا رابطہ باقی علاقوں سے کاٹنے کے لیے عراقی فورسز اب اس کے قریب جمع ہیں۔
چیئرمین ڈیمپسی نے کہا کہ جو افسر رمادی سے بھاگ گئے تھے انہیں تبدیل کر دیا گیا ہے اور عراقیوں کے لیے ضروری ہتھیار گوداموں میں موجود ہیں اور ایسے افسران کا انتظار ہے جو انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکیں۔
انہوں نے پینٹاگان کے اس مؤقف کو دہرایا کہ عراقی فوج کی عسکریت پسندوں کے خلاف پیش قدمی سست روی کا شکار نہیں بلکہ وہ ’’ایسی رفتار سے چل رہی ہیں جسے وہ ملک کے سیاسی ماحول میں برقرار رکھ سکتی ہیں۔‘‘
’’عراق اپنی حکمرانی میں بہتری کی رفتار کے مطابق آگے بڑھے گا، نہ کہ اپنی فوجی صلاحیت کی بنیاد پر۔‘‘
یہ ایک ماہ کے عرصہ میں دوسرا موقع ہے جب ایک اعلیٰ امریکی فوجی عہدیدار نے داعش کے خلاف جنگ کے لیے ’’تعطل‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اگست میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل رے اوڈیرنو نے بھی کہا تھا کہ امریکہ کی قیادت میں جاری فضائی بمباری سے داعش کی پیش قدمی کو روکنے میں مدد ملی ہے مگر ساتھ ہی کہا تھا کہ ’’اس وقت ہم ایک طرح کے تعطل کا شکار ہیں۔‘‘